Skip to main content
© 2020 Sipa via AP Images

11 مارچ 2020 کو، عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے اعلان کیا کہ وبائی بیماری کووڈ-19 جس کی پہلی بار ووہان، چین میں دسمبر 2019 میں نشاندہی ہوئی تھی، عالمی وباء کی صورت اختیار کر گئی ہے۔ وباء کے ''پھیلاؤ اور سنگینی کے تشویشناک خدشات کا اظہار کرتے ہوئے''، ڈبلیوایچ او نے حکومتوں سے اپیل کی کہ وہ وباء کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے فوری اور بھرپور کاروائی کریں۔

انسانی حقوق کے عالمی قانون کی رُو سے ہر شخص کو ممکنہ حد تک اعلیٰ ترین معیاریؚ صحت کا حق حاصل ہے اور حکومتوں پر فرض ہے کہ وہ صحت عامہ کو درپیش خطرات کی روک تھام اور ضرورت مندوں کی طبی نگہداشت کے لیے ضروری اقدامات کریں۔ انسانی حقوق کا قانون یہ بھی تسلیم کرتا ہے کہ صحت عامہ کو سنگین خطرات اور قوم کی زندگی کے لیے پُرخطر قومی ہنگامی حالات میں بعض حقوق پر پابندیاں جائز ہو سکتی ہیں بشرطیکہ اُن کا قانونی جواز ہو، انتہائی ضروری ہوں، محدود مدت کے لیے ہوں، انسانی وقار کا احترام کریں، نظرثانی کے تابع ہوں، اور مقصد کے حصول کے لیے موزوں ہوں۔ 

کووڈ-19 وباء کی سطح اور شدت واضح طور پر صحت عامہ کے لیے ایک ایسا خطرہ بن گئی ہے کہ بعض حقوق پر پابندیاں جائز ہو جاتی ہیں جیسےکہ نقل و حرکت کی آزادی کو محدود کرنے کے لیے قرنطینہ یا تنہائی۔ بیک وقت، انسانی حقوق پر صحیح توجہ مثال کے طور پر غیرامتیازی سلوک اور انسانی حقوق کے اصول جیسے کہ شفافیت اور انسانی وقار کا احترام بحران کے اوقات میں جنم لینے والے انتشار اور افراتفری کے ماحول میں ایک مؤثر ردؚعمل کا سبب بن سکتے ہیں اور اؚن نقصانات کو کم کر سکتے ہیں جو ایسے وسیع تر اقدامات کے اطلاق سے پہنچتے ہیں جو درج بالا معیار پر پورا نہیں اترتے۔

اؚس دستاویز میں، حکومتوں کے اؚس وقت تک کے ردؚعمل کی مثالوں کو مدنظر رکھتے ہوئے، کورونا وائرس کے پھیلاؤ سے انسانی حقوق کے جو مسائل پیدا ہوئے ہیں اُن کا جائزہ لیا گیا ہے، اور ایسی تجاویز پیش کی گئی ہیں جن پر عمل کر کے حکومتیں اور دیگر عناصر وباء کے خلاف اپنے اقدامات میں انسانی حقوق کا احترام کر سکتے ہیں۔

 

کووڈ-19

کووڈ-19 ایک مُتعدّی بیماری ہے جس کا سبب ایک نیا کورونا وائرس ہےجس کی سب سے پہلے نشاندہی دسمبر 2019 میں ہوئی تھی۔ کورونا وائرسز ایسے وائرسز کا کنبہ ہیں جو نظامؚ تنفس کو متاثر کرتے ہیں۔ کووڈ-19 کی روک تھام کے لیے ابھی تک ویکسین تیار نہیں ہوئی،اورنہ ہی اس کا کوئی علاج دریافت ہوا ہے سوائے اس کے کہ صرف علامتوں کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔

مارچ 2020 کےوسط تک، 150 سے زیادہ ممالک میں کووڈ-19 کے کیسز کی اطلاعات مل چکی تھیں، اور ڈبلیو ايج او کی اطلاعات کے مطابق دنیا بھر میں کیسز کی تعداد 200,000 سے زائد ہے۔7,000  سے زائد لوگ مر چکے ہیں اور یہ تعداد تشویشناک حد تک بڑھ رہی ہے۔

 

قابلؚ اطلاق عالمی معیارات

عالمی میثاق برائے معاشی، معاشرتی و ثقافتی حقوق جسے زیادہ تر ممالک نے منظور کر رکھا ہے، کے تحت ہر فرد کو ''ممکنہ حد تک اعلی ترین معیار کی جسمانی و ذہنی صحت'' کا حق حاصل ہے۔ حکومتیں وبائی، متعدی، پیشہ ورانہ اور دیگر بیماریوں کی روک تھام، علاج اور کنٹرول کے لیے مؤثر اقدامات کرنے کی پابند ہیں۔''    

میثاق کی پاسداری پر نظر رکھنے والی اقوامؚ متحدہ کی کمیٹی برائے معاشی، معاشرتی و ثقافتی حقوق نے کہا کہ:

صحت کے حق کا حقوق کی عالمی دستاویز میں درج دیگر حقوق  جن میں خوراک، روزگار، تعلیم، انسانی وقار، زندگی، عدم امتیاز، برابری، ایذا رسانی کی ممانعت، خلوت، معلومات تک رسائی، اور انمجمن سازی، اجتماع اور نقل و حرکت کی آزادی کے حصول کے ساتھ بہت قریبی تعلق ہے اور اؚس کا تحفظ اُن کے تحفظ پر منحصر ہے۔ یہ اور دیگر حقوق اور آزادیاں صحت کے حق کے لازمی اجزا کو پورا کرتے ہیں۔

صحت کا حق تقاضا کرتا ہے کہ صحت کے مراکز، سازوسامان، اور سہولیات:

  • مناسب مقدار میں دستیاب ہونے چاہییں
  • بلاامتیاز ہر فرد کی رسائی میں ہوں، اور تمام افراد حتیٰ کہ پسے ہوئے طبقوں کی پہنچ میں ہوں؛
  • قابلؚ قبول ہوں، طبی اخلاقیات کے لیے قابل احترام اور ثقافتی لحاظ سے موزوں ہوں؛ اور
  • سائنسی و طبی لحاظ سے موزوں ہوں اور معیاری ہوں۔

سیراکیوزا اصول، جنہیں یواین کی معاشی و معاشرتی کونسل نے 1984 میں منظور کیا تھا اور ہنگامی حالات اور نقل و حرکت کی آزادی پر یواین کمیٹی برائے انسانی حقوق کے عمومی تبصرے اُن حکومتی اقدامات کے لیے واجب التعمیل رہنمائی فراہم کرتے ہیں جو صحت عامہ یا قومی ہنگامی صورتؚ حال جیسی وجوہ پر انسانی حقوق کو محدود کرتے ہیں۔ عوام کے تحفظ کے لیے کیے گئے اقدامات جو عوام کے حقوق و آزادیوں کو محدود کرتے ہوں قانونی، ضروری اور موزوں ہونے چاہییں۔ ہنگامی حالت کا اطلاق محدود مدت کے لیے ہونا ضروری ہے اور حقوق پر پابندیاں عائد کرتے وقت مخصوص آبادیوں اور پؚسے ہوئے طبقوں پر پڑے نے والے نسبتاً زیادہ اثرات کو مدنظر رکھا جائے۔

16 مارچ 2020 کو، یواین کے انسانی حقوق کے ماہرین کے ایک گروپ نے کہا کہ ''کووڈ-19 وباء کے پھیلاؤ کی بنیاد پر ہنگامی حالات کے اطلاق کو مخصوص گروہوں، اقلیتوں، یا افراد کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔ اسے صحت کی حفاظت کے لبادے میں جابرانہ عمل پر پردہ ڈالنے کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔ ۔ ۔ اور اختلاف رائے کو دبانے کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔''

سیراکیوزا اصول خاص تاکید کرتے ہیں کہ پابندیاں، کم از کم:

  • قانون کی مطابقت میں لاگو ہوں اور قانون کی روشنی میں ہی جاری رہیں؛
  • مفاد عامہ کو ملحوظ خاطر رکھ کر لگائی جائیں؛
  • ایک جمہوری سماج میں مقصد کے حصول کے انتہائی ناگزیر ہوں؛
  • مقصد تک پہنچنے کے لیے بہت کم دخل انداز اور امتناعی ہوں؛
  • سائنسی بنیاد پر مبنی ہوں اور اطلاق میں نہ من مانی اور نہ امتیازی ہوں؛ اور
  • محدود مدت کے لیے ہوں، انسانی وقار کے احترام پر مبنی ہوں اور نظرثانی کے تابع ہوں۔

 

انسانی حقوق سے متعلق خدشات

اظہار کی آزادی کو تحفظ دیا جائے اور ضروری معلومات تک رسائی یقینی بنائی جائے

انسانی حقوق کے عالمی قانون کے تحت، حکومتوں کا فرض ہے کہ وہ اظہار کی آزادی بشمول سرحدوں سے قطع نظر، ہر قسم کی معلومات کی جستجو، حصول اور ترسیل کے حق کی حفاظت کریں۔ عوام کی صحت کی خاطر، مناسب پابندیاں، جن کا اوپر ذکر ہے، اؚس حق کو متاثر نہیں کرتیں۔

حکومتیں حقؚ صحت سمیت انسانی حقوق کے تحفظ و فروغ کے لیے ضروری معلومات دینے کی پابند ہیں۔ کمیٹی برائے معاشی، معاشرتی و ثقافتی حقوق سمجھتی ہے کہ سماج میں صحت کے بنیادی مسائل سے متعلق معاملات کی تعلیم و معلومعات کی فراہمی بشمول وہ معلومات جو  ان مسائل کی روک تھام و تدارک سے متعلق ہے، حکومتوں کا ''بنیادی فریضہ'' ہے۔ کووڈ-19 پر انسانی حقوق پر مبنی ردؚعمل تقاضا کرتا ہے کہ وباء، سہولیات تک رسائی، سہولیات کے تعطل، اور وباء پر ردؚعمل کے دیگر پہلوؤں کے بارے میں درست اور تازہ ترین معلومات تپر تمام افراد کی تمام افراد کی دسترس میں ہونی چاہییں۔  

کئی ممالک میں، حکومتیں صحافیوں اور شعبہ صحت سے وابستہ لوگوں کے خلاف کاروائیاں کرنے کے سبب اظہار کی آزادی کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکاام ہیں۔ اس کا حتمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بیماری کے حملے کے متعلق معلومات کی مؤثر فراہمی متاثر ہوتی ہے اور سرکاری اقدامات پر عوام کا اعتماد کم ہوتا ہے:

چینی حکومت نے ابتدا میں عوام سے کوروناوائرس کے متعلق معلومات عوام سے چھپائیں، وباء کے کم کیسز ظاہرکیے، وباء کی شدت کو کم ظاہر کیا اور انسانوں سے انسانوں میں منتقلی کے امکان کو مسترد کیا۔ حکام نے لوگوں کو سوشل میڈیا پر وباء کی رپورٹنگ پر اور انٹرنیٹ صارفین کو ''افواہیں پھیلانے'' کے الزام میں گرفتار کیا،وباء پر آن لائن بحث پر پابندی لگائی اور ذرائع ابلاغ پر رپورٹنگ کو دبایا۔ جنوری کے شروع میں، ووہان کے ایک ہسپتال جہاں مریضوں کا علاج ہورہا تھا، کے ایک ڈاکٹر لی وینلیانگ نے آن لائن گفتگو میں نئے وائرس کے بارے میں خبردار کیا تو انہیں پولیس نے ''افواہیں پھیلانے'' پر طلب کر لیا۔ وہ اس بیماری سے فروری کے اوائل میں انتقال کر گئے۔

ایران میں وبا پھوٹی جب حکام نے وسیع پیمانے پر ہونے والے حکومت مخالف مظاہروں کو بری طرح دبا کر اور ایک مسافر طیارے کو مار گرانے کے متعلق جھوٹ بول کر عوامی اعتماد کو نقصان پہنچایا۔ اس کے نتیجے میں، حکومت کو عوام کو یہ یقین دہانے کرانے کے لیے بڑی تگ و دو کرنی پڑی کہ کووڈ-19 کے حوالے سے سرکار کی فیصلہ سازی عوام کے بہترین مفاد میں ہے۔ سرکاری عہدیداروں کو وباء لگنے کے واقعات کی بڑی شرح اور ریاستی عہیاراروں اور ملکی ذرائع ابلاغ کے اعدادوشمار میں تضاد نے ان خدشات کو تقویت دی کہ اعدادوشمار کو جان بوجھ کر کم پیش کیا جا رہا ہے یا پھر انہیں اکٹھا کرنے اور ان کا تجزیہ کرنے کا عمل بہت ناقص ہے۔

تھائی لینڈ میں وؚسل بلورز(پس پردہ رہ کر حقائق سامنے لانے والے) اور آن لائن صحافیوں کے خلاف حکام نے انتقامی قانونی دعوے اور اُنہیں دھمکیاں دیں جب اُنہوں نے وباء کے ردؚعمل میں سرکاری اقدامات پر تنقید کی، ممکنہ خدشات ظاہر کیے کہ سرکار کے غلط اقدامات پر پردہ ڈالا جائے گا، اور سرجیکل ماسکوں اور دیگر طبی سازوسامان کی ذخیرہ اندوزی اور نفع اندوزی سے متعلق بدعنوانی کی اطلاعات دیں۔ کچھ طبی عملے کو ملازمت کے معاہدے ختم کرنے اور اپنے لائسنس منسوخ کرنے سمیت انضباطی کاروائی کی دھمکی دی گئی جس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ملک بھر کے ہسپتالوں میں ضروری سازوسامان کی شدید قلت کے بارے میں بولے تھے۔

چند ایک ممالک نے واقعات کی تعداد کی کھلی معلومات اور شفاف رپورٹنگ کو ترجیح دی:

تائیوان نے وباء سے لڑنے کے لیے فوری اقدامات کیے۔ عوام کو مستند معلومات کی فوری فراہمی اُن اقدامات کا حصہ تھی۔ روزانہ کی پریس بریفنگیں اور عوام کی سہولت کے لیے ہونے والے اعلانات کا مقصد غلط معلومات کا مقابلہ کرنا تھاجس سے خوف کو کم کرنے، عوام کا اعتماد بحال کرنے اور بحران میں لوگوں کی معاونت کی حوصلہ افزائی کرنے میں مدد ملی۔

سنگاپور کی حکومت نے مریضوں  اور صحتیاب ہونے والوں کی تعداد اور شرح پر تازہ ترین مفصل اعدادوشمار مستقل بنیادوں پر جاری کیے۔

جنوبی کوریا کی حکومت نے بھی صحت کے کوائف جاری کیے اور صحت کے اہلکاروں نے ہرروز دو بریفنگیں دی تاکہ لوگوں کا اعتماد بنے اور وہ چوکس و ہوشیار رہیں۔

اٹلی میں ریاستی عہدیداروں کی طرف سے متضاد پیغامات، بشمول وہ جن کی وجہ خاص ملکی سیاسی حالات تھے، 

نے ہو سکتا ہے کہ مناسب صفائی اور سماجی فاصلے کے متعلق اعلانات کے اثر کو کم کیا ہو۔ حکومت نے روزانہ کی بنیاد پر ذرائع ابلاغ کے ذریعے کوائف جاری کیے اور ایک بھرپور عوامی مہم چلائی جس میں لوگوں کو وباء سے اپنے اور دوسروں کے تحفظ کے لیے حفاظتی اقدامات کے بارے میں بتایا گیا۔

سفارشات:

حکومتیں اظہار کی آزادی اور معلومات تک رسائی کے حقوق کا مکمل احترام کریں اور انہیں صرف عالمی اصولوں کی روشنی میں محدود کریں۔

حکومتیں کووڈ-19 کے بارے میں عوام کو جو معلومات دیں وہ درست، بروقت اور انسانی حقوق کے اصولوں سے ہم آہنگ ہونی چاہییں۔ غلط اور گمراہ کُن معلومات سے نبٹنے کے لیے یہ ضروری ہے۔

کووڈ-19 کے متعلق ہر قسم کی معلومات قابلؚ رسائی اور مختلف زبانوں میں ہونی چاہیے، ان لوگوں کے لیے بھی جو کم پڑھے لکھے ہیں یا بالکل نہیں پڑھے لکھے۔ اس میں ٹیلی ویژن کے ذریعے ہونے والے اعلانات کے لیے اچھے معیار کی تشریح کا بندوبست کیا جائے جیسا کہ تائیوان نے کیا ہے؛ ویب سائٹس جو نظر، سماعت، لرننگ اور دیگر معذوریوں کے شکار لوگوں کے لیے قابل رسائی ہوں؛ ٹیلی فون پر مبنی سہولیات جن میں اُن لوگوں کے لیے قابلؚ فہم  پیغامات ہوں جو بہرے ہیں یا جن کے لیے سننا مشکل ہے۔ معلومات کی ترسیل سادہ زبان میں ہو تاکہ اسے زیادہ سے زیادہ سمجھا جا سکے۔ بچوں کوعمر کے لحاظ سے موزوں معلومات دی جائے جس سے انہیں خود کو محفوظ کرنے کے لیے اقدامات کرنے میں مدد مل سکے۔

صحت کے کوائف خاص طور پر حساس ہوتے ہیں اور معلومات کا آن لائن اجراء متاثرہ افراد اور اُن لوگوں کے لیے بڑے خطرے کا سبب بن سکتا ہے جو سماج میں غیرمحفوظ اور پؚسی ہوئی حالت میں ہیں۔

انٹرنیٹ تک قابلؚ بھروسہ اور بلاتعطل رسائی کا بندوبست کیا جائے اور انٹرنیٹ کی سہولت کم آمدنی والے لوگوں کی پہنچ میں لانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ امریکی وفاقی مواصلاتی کمیشن کی، ''امریکیوں کو جوڑ کر رکھیں''، کا عہد شراکتی کمپنیوں کو پابند کرتا ہے کہ وہ اُن صارفین کو سہولیات کی فراہمی معطل نہیں کریں گی جو کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل کی وجہ سے واجبات ادا نہیں کر سکتے، ادائیگی میں تاخیر پر لگنے والے محصولات معاف کریں اور ہر اُس امریکی کے لیے وائی فائی ہاٹسپاٹس کھولیں جسے اُن کی ضرورت ہے۔ وباء کے دنوں میں ڈیٹا کیپ ہٹانے، رفتار بہتر کرنے اور کم آمدنی والوں کے  مفاد کے لیے شروع کیے گئے منصوبوں کے لیے اہلیت کی شرائط ختم کرنے کے لیے مزید اقدامات کیے جائیں۔

 

یقینی بنائیں کہ قرنطینہ، لاک ڈاؤن، اور سفری پابندیاں انسانی حقوق کی اقدار سے ہم آہنگ ہوں

انسانی حقوق کا عالمی قانون، خاص طور پر عالمی میثاق برائے شہریتی وسیاسی حقوق (آئی سی سی پی آر) کہتا ہے کہ صحت عامہ یا قومی ہنگامی حالات کی وجوہ پر حقوق پر لگنے والی پابندیاں قانونی، ضروری اور موزوں ہونی چاہییں۔ مشتبہ مریضوں کا لازمی قرنطینہ یا تنہائی جیسی پابندیوں پر عملدرآمد، کم از کم، قانونی کی مطابقت میں ہونا چاہیے۔ وہ جائز مقصد کے حصول کے لیے انتہائی ضروری ہوں، سائنسی بنیاد پر مبنی ہوں اور اطلاق میں نہ من مانی اور نہ امتیازی ہوں، محدود مدت کے لیے ہوں، انسانی وقار کے لیے احترام پر مبنی ہوں اور نظرثانی کے تابع ہوں۔

غیرمعینہ مدت کے لیے بڑے پیمانے پر قرنطینہ اور لاک ڈاؤن بمشکل ہی اس معیار پر پورا اترتے ہیں اور اکثر جلد بازی میں کیے جاتے ہیں، جس دوران قرنطینہ میں رہنے والوں خاص طور پر خطرے سے دوچار آبادیوں کے تحفظ کو یقینی نہیں بنایا جاتا۔ چونکہ ایسے قرنطینہ اور لاک ڈاؤن کا ایک ہی جیسا نفاذ اور اطلاق مشکل کام ہوتا ہے، اس لیے یہ اپنے اطلاق میں بے جا اور امتیازی ہوتے ہیں۔

انسانی حقوق کے عالمی قانون کی رو سے، نقل و حرکت کی آزادی، اصولی طور پر، تمام افراد کو یہ حق دیتی ہے کہ وہ اپنا ملک چھوڑ سکتے ہیں، اپنی قومیت کے ملک میں داخل ہو سکتے ہیں، اور ملک کے تمام علاقوں میں آزادی کے ساتھ نقل و حرکت کر سکتے ہیں۔ ان حقوق پر پابندیاں صرف اُس صورت میں لگائی جا سکتی ہیں کہ وہ قانونی ہوں، ایک جائز مقصد کے لیے ہوں، اور موزوں ہوں۔ سفری پابندیاں اور نقل حرکت پر بندشیں امتیازی نہیں ہو سکتیں اور نہ ہی لوگوں کے پناہ لینے کے حق کے منافی ہو سکتی ہیں یا اُنہیں اُس ملک میں واپس بھیجنے پر حتمی پابندی جہاں ان پر مظالم یا تشدد ہونے کے امکانات ہیں، کے برخلاف نہیں ہو سکتیں۔

عالمی قانون کے تحت،  حکومتوں کو  اختیار ہے کہ دیگر ممالک سے مسافرین یا مہاجرین  کے داخلے پر پابندی عائد کر سکتی ہیں۔ تاہم، تاریخی لحاظ سے دیکھا جائے تو ملکی اور عالمی سفری پابندیوں کا وباء کی ترسیل کی روک تھام میں کردار محدود ہی رہا ہے، اور حقیقت میں یہ پابندیاں بیماری کے پھیلاؤ کو تیز کر سکتی ہیں اگر لوگ اُن کے اطلاق سے پہلے قرنطینہ مراکز سے چلے جاتے ہیں۔

چین میں، حکومت نے حقوق کا خاطرخواہ خیال کیے بغیر بڑے پیمانے پر قرنطینہ کا اطلاق کیا:

جنوری کے وسط میں، چینی حکام نے دو دنوں میں لگ بھگ چھ کروڑ لوگوں کو قرنطینہ کیا تاکہ وباء کو صوبہ ہوبے کے شہر ووہان جہاں سے اس کی پہلی دفعہ اطلاع ملی تھی، سے دیگر علاقوں میں پھیلنے سے روکا جا سکے، حالانکہ جب قرنطینہ شروع ہوا، اُس وقت تک ووہان کی ایک کروڑ، دس لاکھ آبادی میں سے پچاس لاکھ لوگ شہر چھوڑ چکے تھے۔ قرنطینہ والے شہروں میں کئی لوگوں نے طبی نگہداشت اور دیگر ضروریاتؚ زندگی کے حصول میں مشکلات کا اظہار کیا، اور اموات اور بیماریوں کی دردناک کہانیاں سامنے آئیں۔ ایک لڑکا دماغی فالج کے باعث مر گیا کیونکہ اس کے والد کو قرنطینہ مرکز میں ڈالا گیا جس کے بعد کوئی بھی اس کا خیال نہ رکھ سکا۔ خون کے سرطان کی ایک مریضہ ہلاک ہوئی کیونکہ اسپتالوں نے بیماری کی ترسیل کے ڈر سے اُسے داخل کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ایک ماں گؚڑگڑا کر پولیس سے استدعا کرتی رہی کہ سرطانؚ خون میں مبتلا اس کی بیٹی کو کیمیائی علاج کے لیے ایک پُل پر قائم پولیس چوکی سے گزرنے دیا جائے۔ گردے کی بیماری والے ایک شخص نے اُس وقت اپنے اپارٹمنٹ کی بالکَنی سے چھلانگ لگا کر زندگی سے ہاتھ دھو دیے جب وہ ڈایا لائسز کے لیے کسی صحت مرکز نہ جا سکا۔ اطلاعات کے مطابق، حکام نے لوگوں کی بندش کے لیے کئی ایسے اقدامات کیے جو بےجا مداخلت تصور ہوتے ہیں۔ مشتبہ متاثرہ خاندانوں کی ناکہ بندی کے لیے اُن کے دروازوں کو دھات کے ستونوں سے بند رکھا گیا، ماسک پہننے سے انکار کرنے والے لوگوں کو گرفتار کیا گیا اور لاؤڈاسپیکر والے ڈرون اڑائے گئے جنہوں نے بغیر ماسک باہر جانے والے لوگوں کو بُرابھلا کہا۔ حکام نے ووہان یا صوبہ ہوبے کے اُن لوگوں کے خلاف امتیازی سلوک کے تدارک کے لیے کچھ نہ کیا جو چین کے دیگر علاقوں میں منتقل ہو گئے تھے۔

اٹلی میں حکومت نے لاک ڈاؤن کا اطلاق کیا، مگر انفرادی حقوق کے لیے نسبتاً بہتر حفاظتوں کے ساتھ۔ فروری کے اواخر میں ملک میں کووڈ-19 کے کیسز سامنے آنے کے بعد، اٹلی کی حکومت نے وقت کے ساتھ ساتھ بتدریج پابندیاں لگائیں۔ شروع شروع میں، حکام نے لمبارڈے میں 10 قصبوں اور وینوٹو میں ایک قصبے کو سخت گیر قرنطینہ قرار دیتے ہوئے وہاں کے باشندوں کو علاقے چھوڑنے سے منع کیا۔ ساتھ ہی انہوں نے متاثرہ علاقوں میں سکول بند کر دیے۔ واقعات میں اضافے اور ریاستی نظامؚ صحت پر بڑھتے ہوئے ناقابلؚ برداشت بوجھ کا حوالہ دیتے ہوئے، حکومت نے 8 مارچ کو ملک کے شمالی علاقوں پر کئی نئے اقدامات کا اطلاق کیا جن کی بدولت نقل و حرکت اور بنیادی آزادیوں پر پہلے سے سخت پابندیاں عائد ہوئیں۔ اگلے دن، پورے ملک پر اقدامات کا اطلاق کیا گیا۔ 

مزید اقدامات لاگو کیے گئے۔ ضروری کام یا طبی ضروریات (خود ساختہ تصدیق پر) کے سوا سفر پر پابندی، تمام ثقافتی مراکز(سینما، عجا‏ئب گھر) کی بندش، اور کھیل کی تمام تقاریب اور عوامی اجتماعات کی تنسیخ اُن اقدامات کا حصہ تھے۔ 11 مارچ کو، حکومت نے ملک بھر میں تمام شراب خانے، ریستوران اور اسٹور ماسوائے کھانے کے بازاروں اور ادویات خانوں کے( اور چند ایک مستثنیات کے) بند کر وا دیے۔ جائز وجوہ کے بغیر سفری پابندیوں کی پاسداری نہ کرنے والے لوگوں کو 206 یورو جرمانہ اور تین ماہ کی قید ہو سکتی ہے۔ ملک بھر میں تمام سکول اور جامعات بند کر دی گئی تھیں۔ لوگوں کو ضروری اشیاء کی خرید، ورزش، کام (اگر وہ گھر سے کام کرنے کے قابل نہیں)، اور صحت کے مسائل (کسی بیمار رشتہ دار کا خیال رکھنے سمیت) کے باعث باہر نکلنے کی اجازت دی گئی۔

جنوبی کوریا، ہانگ کانگ، تائیوان اور سنگاپور جیسی دیگر حکومتوں نے وباء پھوٹنے کے بعد کے اقدامات کے دوران ذاتی آزادی پر وسیع تر پابندیوں کے اطلاق سے گریز کیا، مگر اُن ملکوں سے مسافرین کی تعداد کم کر دی جہاں یہ وباء کافی زیادہ پھیلی ہوئی تھی۔

جنوبی کوریا میں، حکومت نے کووڈ-19 سے بچاؤ کے لیے پہلے سے ہی اور بڑی تعداد میں لوگوں کے طبی معائنے کیے۔ حکومت نے وباء والے علاقوں کی نشاندہی پر توجہ مرکوز کی، خطرے سے دوچار افراد کے بلافیس معائنے کیے، اُن شاہراہوں و گلیوں کو وائرس سے پاک کیا جہاں مشتبہ مریضوں کی تعداد زیادہ تھی، ڈرائیو تھرو معائنہ مراکز قائم کیے اور سماجی فاصلے کی حوصلہ افزائی کی۔ ہانگ کانگ میں، سماجی فاصلے، ہاتھو دھونے اور ماسک پہننے کی ٹھوس کوششیں نظر آئیں۔ تائیوان نے پیش بند اقدامات کے طور پر اُن لوگوں کا سراغ لگایا جنہوں نے سانس لینے میں دشواری کے لیے علاج کی درخواست کی تھی اور اُن میں سے بعض کا کووڈ-19 کا معائنہ کیا۔ انہوں نے ایک ایسا ںظام بھی تشکیل دیا جس کے باعث حکام چوکنا ہوتے ہیں اور جب لوگ کلینکوں میں آتے ہیں تو حکام کو ان کے سفر کی تاریخ اور علامتوں کی بنیاد پر شناخت اور مانیٹرنگ کے کام میں مدد ملتی ہے۔ سنگاپور نے دیگر اقدامات کے ساتھ ساتھ، اُن لوگوں کے رابطے میں رہنے والوں کے سراغ کا طریقہ کار اپنایا جن میں وائرس کی تصدیق ہوئی تھی۔ البتہ، حکومت نے چار غیرملکی مزدوروں کو 14 دن کے لیے کام پر قانونی پابندی کی خلاف ورزی کرنے پر ملک بدر کردیا اور ملک میں ان کے کام پر پابندی عائد کی جو کہ غیرموزوں سزائیں ہیں۔  

سفارشات:

حکومتیں نقل و حرکت اور ذاتی آزادی پر بلاامتیاز اور لمبی چوڑی پابندیاں لگانے سے گریز کریں اور صرف لازمی پابندیوں کا اطلاق کریں جو سائنسی لحاظ سے ضروری اور اہم  ہوں اور اُس وقت لگائی جائیں جب متاثرہ لوگوں کی امداد کے طریقوں کو یقینی بنا لیا جائے۔ امریکہ میں صحت و قانون کے 800 سے زائد ماہرین کے لکھے گئے ایک خط میں کہا گیا ہے کہ ''رضاکارانہ خودساختہ تنہائی والے اقدامات (تعلیم، بڑی سطح کے طبی معائنوں اور علاج تک عالمگیر رسائی کے ساتھ) جبری اقدامات کی نسبت عوام کا زیادہ تعاون اور اعتماد حاصل کریں گے اور صحت کے نظام سے رابطےسے گریز کی کوششوں کی روک تھام کے لیے مددگار ثابت ہوں گے۔''

قرنطینہ یا لاک ڈاؤن نافذ کرتے وقت حکومتوں کا فرض ہے کہ وہ لوگوں کو خوراک، پانی، صحت اور نگہداشت کی سہولتیں دیں۔ کئی بزرگوں اور معذوری کے شکار لوگوں کا انحصار گھریلو اور سماجی خدمات کی بلاتعطل فراہمی پر ہوتا ہے۔ ان خدمات اور اقدامات کے تسلسل کو یقینی بنانے کا مطلب یہ ہے کہ سرکاری ایجنسیاں، سماجی تنظیمیں، صحت کی سہولیات اور دیگر ضروری سہولتیں فراہم کرنے والے اس حالت میں ہیں کہ وہ عمررسیدہ لوگوں اور معذوری کے شکار افراد کی ضروریات پورا کرنے کے لیے اہم کاروائیاں جاری رکھ سکیں۔ حکومتیں ایسی تدابیر اختیار کریں جو سہولیات کی فراہمی کو کم سے کم متاثر کریں اور متبادل سہولیات کے لیے ہنگامی ذرائع پیدا کریں۔ سماج کی سطح پر خدمات میں خلل کے نتیجے میں عمررسیدہ اور معذوری کے شکار لوگوں کی صلاحیتیں کم ہو جاتی ہیں اور اموات سمیت صحت کے مزید منفی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔     

 

سرکار اور اداروں کی زیرؚتحویل لوگوں کو تحفظ دیں

 کووڈ-19، دیگر وبائی امراض کی طرح، اُن آبادیوں کو لیے زیادہ خطرے کا باعث ہے جہاں لوگ بہت قریب قریب رہ رہے ہیں۔ اور یہ مرض عمررسیدہ لوگوں اور دل کی بیماری، ذیابیطس، سانس کی دیرینہ بیماری اور بلند فشار خون کے شکار لوگوں کو دیگر لوگوں کی نسبت زیادہ متاثر کرتی ہے۔ چین میں کووڈ-19 سے مرنے والوں میں 80 فیصد وہ لوگ تھے جن کی عمر 60 برس سے زائد تھی۔

حراستی مقامات جیسے کہ قیدخانوں، جیلوں اور مہاجرین کے حراستی مراکز، نیز معذوری کے شکار لوگوں کے رہائشی اداروں، اور عمررسیدہ لوگوں کی دیکھ بھال کے مراکز پر خطرہ خاص طور پر زیادہ ہے کیونکہ وہاں وباء تیزی سے پھیل سکتی ہے، خاص کر اگر صحت کا نظام پہلے سے ناقص ہے۔ ریاست کا فریضہ ہے کہ وہ اپنے زیرؚ تحویل لوگوں کو کم از کم اس حد تک صحت کی سہولت ضرور دے جس طرح کی طبی سہولت کا بندوبست اؚس نے باقی عام لوگوں کے لیے کیا ہوا ہے۔ اور مہاجرین بشمول وہ مہاجرین جن کے نام درج نہیں سمیت تمام زیرؚحراست افراد کو احتیاطی، شافی اور تخفیفی طبی امداد تک مساوی رسائی سے محروم نہ کرے یا صحت کی ان سہولیات تک اُن کی رسائی محدود نہ کرے۔ پناہ گزين، مہاجرین جو خیموں میں مقیم ہیں، اور بے گھر لوگ زیادہ غیرمحفوظ ہیں کیونکہ اُنہیں مناسب پانی اور حفظانؚ صحت کی سہولیات میسر نہیں۔   

ضعیفوں کی دیکھ بھال کے مراکز اور دیگر مقامات جہاں بزرگ افراد کی بڑی تعداد مقیم ہے وہاں اُن کے ملاقاتیوں سے متعلق پالیسی اس طرح متوازن ہو کہ جس میں بزرگوں اور خطرے کےشکار دیگر باشندوں کے تحفظ، اور خاندان اور ديگر لوگوں سے ان کے رابطے کی ضرورت کے مابین توازن پیدا ہو۔ امریکی محکمہ برائے امورؚ بزرگان نے کووڈ-19 کے خطرے کے ردعمل میں ملک بھر کے تمام 134 نرسنگ سنٹرز میں ''نووزٹیر''پالیسی کا اعلان کیاجس سے مراد یہ ہے کہ کوئی بھی فرد وہاں مقیم لوگوں سے ملنے نہیں جا سکتا۔اس میں شک نہیں کہ عمررسیدہ لوگوں کو درپیش خطرہ سنگین ہے مگر ایسی بلاامتیاز پالیساں عوام کی صحت سے متعلق رہنمائی یا عمررسیدہ لوگوں کی ضروریات کا خیال نہیں رکھتیں۔  

قیدخانوں، جیلوں اور پناہ گزین حراستی مراکز میں مقیم لوگوں کو عام حالات میں مناسب طبی امداد نہیں ملتی، یہاں تک کہ معاشی طور پر ترقی یافتہ ملکوں میں بھی۔ یوایس امیگریشن و کسٹمز انفورسمنٹ کی تحویل میں مہاجرین کی حالیہ اموات میں انتہائی غیرمعیاری طبی نگہداشت کا بھی کردار تھا۔ زیرؚتحویل آبادیوں میں عمررسیدہ لوگ اور ایسے لوگ بھی ہیں جنہیں کئی دیرینہ بیماریاں لاحق ہیں، مطلب کہ انہیں کووڈ-19 سے بیمار ہونے کا زيادہ خطرہ ہے۔

امریکہ کی جیلوں میں کئی لوگ کسی جرم کی سزا نہیں بھگت رہے مگر صرف اؚس وجہ سے بند ہیں کہ وہ اپنے مقدمے میں ضمانت کی فیس ادا نہیں کر سکتے۔ امریکی جیلوں میں بزرگ مردوں اور عورتوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے جس کی وجوہ لمبی سزائیں ہیں، اور جیل کا عملہ اُنہیں طبی سہولتیں دینے میں پہلے ہی مشکلات کا شکار ہے۔ ردؚعمل میں، امریکی ریاست اوہائیو میں، عدالتوں نے جیل میں بند لوگوں کے مقدمات پر نظرثانی کا عمل تیز کیا، بعض کو رہا کر دیا اور دیگر کو جیلوں میں بھیج دیا۔ امریکی یونین برائے شہری آزادیاں نے ایک درخواست دائر کی ہے جس میں وباء کے تناظر میں، مہاجرین کی رواں حراست کو چیلنج کیا گیا ہے۔

ایران کی جیلوں سے کورونا وائرس کے مثبت کیسز کی اطلاعات ملی ہیں، تہران کی ایون جیل اور یورومیہ اور رشت شہروں میں بھی۔ پُرامن احتجاج پر قید کیے گئے 25 قیدیوں کے خاندانوں نے فروری میں اپنے ایک کھلے خط میں، درخواست کی کہ وباء پھوٹنے اور جیل میں صحت کی ناکافی سہولیات کے باعث انہیں کم از کم عارضی طور پر رہا کر دیا جائے۔ مارچ میں، ایرانی عدالت نے اطلاعات کے مطابق لگ بھگ 85,000  قیدیوں کو ایرانی نئے سال (نوروز) پر عارضی طور پر رہا کیا۔ یہ عام حالات میں تعطیل کے روز رہا ہونے والوں سے بڑی تعداد تھی۔ اور اُنہیں بظاہر کوروناوائرس کی وجہ سے صحت کے مسائل کے باعث چھوڑا گیا تھا۔ مگر، زیرؚحراست انسانی حقوق کے دفاع کار اور دیگر درجنوں لوگ بند ہی رہے جنہیں قومی سلامتی جیسے جرائم جس کی قانون میں بہت مبہم تعریف دی گئی ہے، میں پکڑا گیا تھا۔     

12 مارچ کو، بحرین کے بادشاہ حماد بن عیسیٰ الخلیفہ نے اطلاعات کے مطابق '' موجودہ حالات کے تناظر میں انسانی بنیادوں پر'' 901 قیدیوں کو معاف کیا۔ قیاس یہی ہے کہ انہیں کورونا وائرس کی وباء پھوٹنے کی بدولت رہا کیا گیا تھا۔ وزارتؚ داخلہ نے اعلان کیا کہ 585 اور قیدیوں کو رہا کیا جائے گا اور اُنہیں غیرحراستی سزائیں دی جائیں گی۔

اٹلی میں، 40 سے زائد جیلوں میں قیدیوں نے کورونا وائرس کی وباء کے دوران، پُرہجوم جیلوں میں وباء کے خدشات اور اہل خانہ کے ساتھ ملاقاتوں پر پابندی اور نگرانی شدہ رہائی کے خلاف احتجاج کیا۔ ردؚعمل میں حکام نے پہلی مرتبہ قیدیوں اور اُن کے اہل خانہ کے مابین رابطے اور تعلیمی مقاصد کے لیے ای میل اور سکائپ کے استعمال کی اجازت دی ہے اور 18 ماہ سے کم قید والے قیدیوں کو رہا کر کے گھر پر نظربند کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا ہے۔ اینٹی گون کے اندازے کے مطابق اس سے زیادہ سے زیادہ 3,000 قیدیوں کو فائدہ ملے گا جبکہ اصلاحی قیدخانے میں 14,000 سے زائد قیدی ہیں جو کہ وہاں گنجائش سے زيادہ تعداد ہے۔ تنظیم نے مطالبہ کیا ہے کہ دیگر اقدامات کے علاوہ، اور زیادہ قیدیوں کو رہا کیا جائے بشمول عمررسیدہ اور اُن قیدیوں کے جنہیں صحت کے مسائل درپیش ہیں۔ سول سوسائٹی کی تنطيموں نے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ وباء کے خطرے اور ملک بدری کے امکان کی عدم موجودگی کے پیش نظر، اٹلی کے اميگریشن حراستی مراکز میں قیدی لوگوں کے لیے حراست کے علاوہ کوئی اور متبادل انتظامات کیے جائیں۔

 سفارشات:

قیدخانوں، جیلوں اور پناہ گزین حراستی مراکز میں مقیم لوگوں پر اختیار رکھنے والی حکومتی ایجنسیاں نگرانی شدہ یا جلد رہائی کے ذریعے اُن قیدیوں کو رہا کر کے جیلوں میں بند لوگوں کی تعداد میں کمی لانے کے بارے میں سوچ بچار کریں جن کی رہائی خطرے کا باعث نہیں۔ اؚن میں مثال کے طور پر ایسے قیدی بھی ہیں جن کی رہائی کا طے شدہ وقت جلد آنے والا ہے، وہ جو غیرمتشدد یا کم سنگین جرائم میں بند ہیں اور اُن کے مقدمات کی سماعت ابھی شروع نہیں ہوئی، یا جن کی رواں حراست اؚسی طرح کی وجوہ کے باعث غیرضروری یا ناجائز ہے۔ جن قیدیوں کو وباء لگنے کا زیادہ خطرہ ہے جیسے کہ عمررسیدہ افراد اور صحت کے درپردہ مسائل سے متاثرہ لوگوں ان کو بھی انہی وجوہ کے باعث رہا کرنے پر سوچ بچار ہونا چاہیے اس چیز کو مدؚنظر رکھتے ہوئے کہ کیا حراستی مقام ان کی صحت کے حق بشمول علاج تک رسائی کے ضمانت شدہ حق کو تحفظ دینے کے قابل ہے، نیز سرز ہونے والے جرم کی سنگینی اور قید میں گزرنے والے دورانیے کو بھی مدؚنظر رکھتے ہوئے۔  

اگر وائرس کی وجہ سے محفوظ اور قانونی ملک بدریاں ملتوی کر دی گئی ہیں تو پھر اُن لوگوں کو حراست میں رکھنے کا جواز باقی نہیں بچتا جن کی ملک بدری کچھ وقت کے لیے ملتوی ہو گئی ہے۔ ایسے واقعات میں، حکام کو چاہیے کہ وہ زیرؚحراست افراد کو رہا کر دیں اور حراست کے متبادل انتظامات کو یقینی بنائیں۔  

قیدخانوں، جیلوں، اور پناہ گزین حراستی مراکز کو عوام کو آگاہ کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر ان کے مقامات پر وائرس کی واقعات پیش آتے ہیں تو وباء کے خطرے کو کم کرنے کے لیے ان کے پاس کیا لائحہ عمل ہے اور وہ وباء کی روک تھام اور قیدیوں، جیل کے عملے اور ملاقاتیوں کے تحفظ کے لیے کیا اقدامات کریں گے۔ کسی بھی قسم کی حراست میں مبتلا لوگوں کو صحت کا وہی حق حاصل ہے جو آزاد لوگوں کے پاس ہے اور وہ اُسی معیار کی روک تھام اور علاج معالجے کے مستحق ہیں۔ زیرحراست لوگوں اور عام آبادی کا مفاد اس چیز کا متقاضی ہے کہ حکام اُنہیں بتائیں کہ انہوں نے کووڈ-19 سے نبٹنے کے لیے کیا بندوبست کر رکھا ہے۔

حکام کو یہ امر یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے کہ وہ صحت عامہ کے شعبوں کے ساتھ اچھی طرح سے رابطے میں ہیں اور عملے اور زیرتحویل لوگوں کے ساتھ معلومات کے تبادلے کو بھی یقینی بنا رہے ہیں۔ انہیں صحت کے حکام کی تازہ ترین سفارشات کی روشنی میں کووڈ-19 کے لیے طبی معائنے کرنے چاہییں۔ انہیں صحت و صفائی کی مؤثر تربیت اور سازوسامان دینا چاہیے اور یقینی بنانا چاہیے کہ وائرس کے خطرے سے دوچار تمام علاقے اور اور ایسے علاقے کو اعلیٰ معیارات کی مطابقت میں باقاعدگی کے ساتھ جراثیم سے پاک ہوں جو قیدیوں، جیل کے عملے اور ملاقاتیوں کے لیے قابلؚ رسائی ہیں۔ انہیں وائرس سے دوچار یا متاثر ہونے والے لوگوں کی رہائش کے لیے منصوبہ بندی کرنی ہو گی۔ وہ یقینی بنائیں کہ رہا ہونے والے یا نگرانی شدہ تعطیل والے افراد کو مناسب رہائیش اور صحت کی سہولت تک رسائی ہو۔ لوگوں کولاک ڈاؤن یا تنہائی میں رکھنے کے منصوبے دائرہ کار اور مدت کے لحاظ سے محدود ہونے چاہییں، اس حوالے سے اؚس وقت دستیاب سب سے بہتر سائنسی اصولوں سے رہنمائی لی جائے، اور یہ اقدامات تعزیری نہیں ہونے چاہییں اور نہ ہی تعزیری لگنے چاہییں کیونکہ ایسا ہو سکتا کہ لوگ اگر وباء کی علامتیں محسوس کریں تو وہ لاک ڈاؤن یا تنہائی میں رکھے جانے کے خوف کی وجہ سے حکام کو بروقت آگاہ نہ کریں۔ حراستی مراکز لوگوں کو اُن کے اہلؚ خانہ یا وکیل سے رابطہ کروانے کے لیے ویڈیو کانفرنس جیسی متبادل حکمت عملیاں اختیار کریں۔

وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کی خواہشمند حکومتیں وباء کے دوران ان قوانین پر نظرثانی کریں یا ان میں ردوبدل کریں جن کا مقصد پناہ گزین قوانین کا نفاذ ہے، حراست کے متبادل کے طور پرعدالتی سماعتوں اور حکام کے سامنے پیشیوں سمیت۔ حکام عوام الناس کو آگاہ کریں کہ وباء کے دوران عدالتی تاریخوں یا پیشیوں پر حاضر نہ ہو سکنے کی صورت میں کوئی منفی نتائج نہیں نکلیں گے۔ حکام من مانی حراستیں بند کریں، پناہ گزین حراستی مراکز میں پڑے لوگوں کو حراست میں رکھنے کی بجائے کوئی متبادل ڈھونڈیں، اور جہاں ممکن ہو رہائی کا راستہ اختیار کریں، خاص کر ان لوگوں کے لیے جنہیں اگر وباء لگ گئی تو وہ بہت بڑے خطرے کا شکار ہو جائیں گے، اور ان کے لیے بھی جو کسی فوری، محفوظ اور قانونی ملک بدری کے امکان کے بغیر حراست میں ہیں۔

مؤثر ریاستی امداد کی عدم موجودگی میں، اقوامؚ متحدہ اور دیگر بین الحکومتی ایجنسیوں کو چاہیے کہ وہ رسمی و غیررسمی حراستی مراکز تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کریں تاکہ وہاں بند لوگوں کو زندگی کی حفاظت کے لیے ناگزیر امداد پہنچائی جا سکے۔

مہاجرین اور پناہ گزین رکھنے والی حکومتوں کو یقینی بنانا ہو گا کہ کہ کووڈ-19 پر ان کے ردؚعمل میں روک تھام اور علاج معالجے کے اقدامات شامل ہیں۔ حراستی مراکز اور خیموں میں ہجوم میں کمی لانے، صفائی کی صورتحال میں بہتری لانے اور طبی نگہداشت کے نظام کو بہتر کرنے پر خاص توجہ دی جائے اور محدود مدت کے لیے قرنطینہ اور تنہائی سے صرف ناگزیر حالت میں رجوع کیا جائے۔

 

شعبہ صحت کے کارکنوں کا تحفظ یقینی بنائيں

حقؚ صحت کے حصے کے طور پر، آئی سی ای ایس سی آر تقاضا کرتا ہے کہ حکومتیں ایسے حالات پیدا کریں جو ''بیماری کی صورت میں تمام طبی خدمت اور طبی توجہ کو یقینی بنائیں۔''

حکومتوں پر پیشہ ورانہ حادثات اور بیماریوں کے خطرے کو کم کرنے کا فریضہ عائد ہے۔ انہیں ملازمین کوصحت سے متعلق معلومات اور حفاظتی ملبوسات و سازوسامان کی فراہمی بھی یقینی بنانی ہو گی۔ اؚس سے مراد یہ ہے کہ شعبہ صحت کے ملازمین اور کووڈ-19 سے نبٹنے میں شریک دیگر لوگوں کو وباء پر کنٹرول کی مؤثر تربیت اور مؤثر حفاظتی سازوسامان دیا جائے۔

کووڈ-19 کے پھیلاؤ سے مقابلے کے لیے ضروری ہے کہ صحت کے مراکز میں مناسب پانی، صفائی، حفظانؚ صحت، فضلے کو ٹھکانے لگانے اورصفائی ستھرائی کا مناسب بندوبست ہو۔ ڈبلیوایچ او اور یواین چلڈرن فنڈ(یونیسف) کی ایک 2019 کی سروے رپورٹ کے مطاق، ''لگ بھگ نواسی کروڑ، ساٹھ لاکھ افراد طبی مراکز پانی کی سہولت کے بغیر استعمال کرتے ہیں اور ڈیڑھ ارب صفائی کے انتظامات کے بغیر اؚن مراکز کا استعمال کرتے ہیں۔''  

ہیومن رائٹس واچ نے ہنگری میں ہسپتال سے لگنے والی بیماریوں پر ایک تحقیق کی جس سے پتہ چلتا ہے کہ بدنظمی، کم وسائل اور ناکافی عملے کا شکار صحت کا ریاستی نظام کووڈ-19 کے پھیلاؤ پر قابو پانے کے قابل نہیں ہے۔

ہیومن رائٹس واچ نے وینزویلا میں صحت کا نظام مکمل طور پر تباہ شدہ حالت میں پایا۔ ہسپتال بند ہیں یا بہت بری طرح فعال ہیں، کئی میں بجلی اور پانی کا مستقل بندوبست نہیں۔ ویکیسین سے قابلؚ انسداد بیماریاں جیسے کہ خسرہ اور خناق کورونا کے پھیلاؤ سے پہلے ہی واپس آ چکی تھیں۔ 

ایران پر وسیع ترامریکی پابندیوں نے ملک کی انسان دوست درآمدات بشمول ادویات پر سرمایہ لگانے کی استعداد کو شدید متاثر کیا ہے۔ اس کے باعث عام ایرانیوں کی سنگین مشکلات پیدا ہوئی ہیں۔ متعلقہ حکومتوں کو کووڈ-19 سے لڑنے میں ایران کی مدد کرنا ہو گی، اور اسے طبی آلات اور معائنہ کی کؚٹیں فراہم کرنا ہوں گی۔

تھائی لینڈ میں صحت کے سرکاری شعبے کو بدعنوانی نے بری طرح نقصان پہنچایا ہے۔ طبی عملے کے پاس سرجیکل ماسکوں کی کمی ہے اور مقامی سپلائیز نے چین اور دیگر منڈیوں کا رخ کر لیا ہے جس کی جزوی وجہ بدعنوانی ہے۔ 

 مصر میں وزارتؚ صحت نے فروری میں ڈاکٹروں اور طبی ٹیموں کو ایک قرنطینہ مرکز بھیجا مگر انہیں بتایا نہیں گیا تھا کہ انہیں کووڈ-19 پر ردؚعمل کے طور پر بھیجا گیا ہے یا انہیں ممکنہ خطرات کے بارے میں آگاہ نہیں کیا گیا تھا۔ طبی عملے نے کہا کہ اس ذمہ داری کی انجام دہی کے حوالے سے ان سے ''چال چلی گئی''۔

لبنان میں، طبی سازوسامان کے درآمدکنندگان کے ملکی ترجمان نے ہیومن رائٹس واچ کو بتایا کہ ملک میں دستانوں، ماسک، چوغوں اور دیگر ضروری سامان کا کال پڑ گیا گیا تھا کیونکہ مالیاتی بحران کی وجہ سے وہ ضروری سامان درآمد کرنے کی حالت میں نہیں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ طبی سازوسامان کے درآمدگان 12 کروڑ ڈالر کا سامان درآمد کرنا چاہتے تھے مگر جنوری سے لے کر اب تک وہ صرف ایک کروڑ ڈالر کا سامان درآمد کر سکے ہیں۔  فروری سے تمام لین دین معطل ہیں جس کی وجہ ملک کا رواں معاشی بحران ہے۔ نجی ہسپتالوں کی سنڈیکیٹ کے سربراہ نے کہا کہ حکومت کے ذمے نجی ہسپتالوں کو واجب الدا ایک اعشاریہ 3 ارب سے زائد ڈالر کی ادائیگی نہیں کی جا رہی جس کی وجہ سے انہیں اپنے عملے کو تنخواہ دینے اور طبی سامان خریدنے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ اس کے باوجود، لبنانی حکومت نے معاشی بحران سے نبٹنے کے لیے اقدامات نہیں کیے جس کی وجہ سے طبی نگہداشت، ادویات اور طبی سازوسامان تک رسائی خطرے میں ہے۔

سفارشات:

حکومتوں کو اقدامات کرنے چاہییں تاکہ طبی نگہداشت ہر ایک کو دستیاب ہو، بلاامتیاز قابل رسائی ہو،لوگوں کی پہنچ میں، طبی اخلاقیات سے ہم آہنگ ہو، ثقافتی لحاظ سے موزوں ہو اور اچھے معیار کی حامل ہو۔ 

 حکومتوں کو چاہیے کہ نگہداشت صحت کے کارکنوں کے پاس مناسب حفاظتی سامان ہو اور ان کارکنوں کے اہل خانہ کے لیے سماجی تحفظ کے منصوبے چلائے جائیں جو اپنے کام کے نتیجے میں مر جاتے یا بیمار ہو جاتے ہی، اور یقینی بنائیں کہ ایسے منصوبوں میں غیررسمی کارکن بھی شامل ہوں جو شعبہ نگہداشت میں بہت بڑی تعداد میں ہیں۔

سابقہ وباؤں کے دوران، بیماری لگنے کے خوف کی وجہ سے صحت کے کارکنان پر حملے بھی ہوئے ہیں۔ حکومتیں ایسے حملوں کی روک تھام کے لیے صورت حال پر نظر رکھیں، اور اگر حملے ہوتے ہیں تو پھر فوری، مؤثر اور مناسب ردعمل کا مظاہرہ کریں۔

 

تعلیم کا حق فراہم کریں چاہے سکول عارضی طور پر بند ہی کیوں نہ ہوں

کئی ملکوں نے کووڈ-19 پھوٹنے کے بعد سکول بند کر دیے  جس سے کروڑوں طالبعلموں کی علم و تعلیم تعطل کا شکار ہے۔ بحرانوں کے اوقات میں، سکول بچوں کو استحکام اور معمول کا احساس بخشتے ہیں اور یقینی بناتے ہیں کہ بچے اپنا معمول برقرار رکھیں اور اور تبدیل ہوتی صورتؚ حال سے نبٹنے کے لیے بچوں کو سکول سے نفسیاتی مدد ملتی ہے۔ سکول بچوں اور والدین کو حفظانؚ صحت، ہاتھ دھونے کی اچھی تراکیب، اور معمول کو توڑنے والے حالات کا سامنا کرنے کے لیے درکار صلاحیتیں سیکھنے کے بھی اہم مواقع فراہم کرتے ہیں۔ سکول تک رسائی نہ ہونے کی صورت میں، یہ ذمہ داری والدین، محافظین اورر نگہبانوں پر عائد ہوتی ہے۔ سکولوں کی بندش کے وقت، سرکاری اداروں کو چاہیے کہ وہ قدم بڑھائیں اور موزوں ذرائع ابلاغ سے صحت عامہ کے بارے میں واضح اور درست معلومات فراہم کریں۔

اس چیز کو یقینی بنانے کے لیے کہ تعلیمی نظام مناسب ردؚعمل کا مظاہرہ کریں، یونیسکو نے سفارش کی کہ ریاستیں ''اعلیٰ درجے کی ٹیکنالوجی، نچلے درجے کی ٹیکنالوجی اور بغیرٹیکنالوجی والے طرا‏‏ئق کار اپنائیں تاکہ تعلیم کا تسلسل جاری رہے۔ کئی ملکوں میں، اساتذہ پہلے ہی ہوم ورک، کمرہ جماعت کی مشقوں اور تحقیق کے لیے کمرہ ہائے جماعت میں ہونیوالی تعلیمی سرگرمیوں کے متبادل کے طور پر آن لائن تعلیم کا طریقہ کار استعمال کرتے ہیں، اور کئی طالبعلموں کو گھر پہ ٹیکنالوجی کے آلات تک رسائی ہوتی ہے۔ مگر سب ملکوں، معاشروں، خاندانوں، سماجی گروہوں کے پاس انٹرنیٹ کی مؤثر سہولت نہیں ہوتی اور کئی بچے ایسی جگہوں پر رہتے ہیں جہاں حکومت اکثر انٹرنیٹ سروس بند کرتی رہتی ہے۔  

سفارشات:

سکول کے عام وقت کے ضیاع کے فوری اثر کو کم کرنے کے لیے آن لائن تعلیم کا استعمال ہونا چاہیے۔ آن لائن تعلیم کے لیے تعلیمی ٹیکنالوجی متعارف کرنے والے سکولوں کو یقینی بنانا چاہیے کہ آلات بچوں کے حقوق اور خلوت کی حفاظت کریں۔ جب سکول دوبارہ کھل جائیں تو حکومتیں کمرہ جماعت میں بالمشافہ جماعت کے کھوئے ہوئے وقت کی کمی پوری کریں۔  

حکومتوں کو اُن بچوں پر پڑنے والے شدید منفی اثرات کم کرنے کے لیے کام کرنا ہو گاجو پہلے ہی تعلیم کی راہ میں رکاوٹیں برداشت کر رہے ہیں، یا جو مختلف وجوہ کے باعث پؚسے ہوئے ہیں بشمول لڑکیاں، جو معذوری کا شکار ہیں، جو اپنے مقام، اپنے خاندان کی صورتحال اور دیگر ناہمواریوں کی وجہ سے متاثرہ ہیں۔ حکومتیں ایسی تدابیراختیار کریں جو بندشوں کے دوران سب طالبعلموں کی مدد کریں، مثال کے طور پر، زیادہ خطرے سے دوچار طالبعلموں کا خیال رکھیں اور یقینی بنائیں کہ طالبعلموں کو شائع شدہ یا آن لائن مواد وقت پر ملے۔ معذوری کے شکار طالبعلموں پر خاص توجہ دی جائے جنہیں موجودہ صورتؚ حال سے ہم آہنگ، قابل رسائی مواد کی ضرورت ہو سکتی ہے۔

 حکومتوں کو وباء کے اثرات کم کرنے کے لیے ضروری حکمتؚ عملیاں اپنانے کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پرضائع ہونے والے تعلیمی وقت کا خسارہ پورا کرنے کے لیے، سکول کے سالانہ اوقات کار اور امتحانانی شیڈول طے کرنے، اور اضافی وقت پر کام کرنے والے اساتذہ اور عملے کو منصفانہ معاوضے کو یقینی بنانے کے لیے اساتذہ، سکول کے اہلکاروں اور اساتذہ یونینوں و انجمنوں کے ساتھ ملک کر منصوبہ کرنی چاہیے۔

ایسے ملکوں میں جہاں سکول سے باہر بچوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، سکول بند ہونے سے سکول میں اندراج کی شرح بڑھانے اوراخراج کی شرح کم کرنے کی کوششیں کافی زيادہ متاثر ہوئی ہیں، خاص طور پر ثانوی تعلیم کی سطح پر۔ حکومتوں کو لازمی تعلیم کی پاسداری کی صورتحال پر نظر رکھنا ہو گی اور یقینی بنانا ہو گا کہ سکول دوبارہ کھلنے کےبعد تعلیمی اہلکار سکول میں تعلیمی سرگرمیوں کی بحالی کا جائزہ لیں۔ اہلکاروں کو یہ بھی یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ جن سکولوں میں مہاجر بچے پڑھتے ہیں وہ ان بچوں کو سکول واپس لانے کے لیے ان سے لازمی رجوع کریں۔

سکولوں کی اچانک بندش سے کم آمدنی والے گھرانوں کو اپنے بچوں کی بنیادی ضروریات پوری کرنے میں مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔ حکومتوں کو چاہیےکہ وہ سکولوں کی بندش کے دوران کم آمدنی والے گھرانوں کے بچوں جو رعایتی کھانے سے محروم ہو جائیں گے، کو کھانے کی بلاتعطل فراہمی یقینی بنائیں۔

 

عورتوں اور لڑکیوں پر نسبتاً زیادہ اثرات پڑتے ہیں جن سے نبٹنے کی ضرورت ہے

بیماریوں کے پھیلاؤ کے صنفی اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ کے مشاہدے میں آیا ہے کہ 2014 میں ایبولا وباء اور2016-2015 میں برازیل میں مچھر سے جنم لینے والی ذیکا وباء نے عورتوں اور لڑکیوں پر خاص طور پر نقصان دہ اثرات مرتب کیےتھے اور دیرینہ صنفی عدم مساوات کو مضبوط کیا تھا۔ ذرائع ابلاغ کی اطلاعات اور صحت عامہ کا تجزیہ ظاہرکرتا ہے کہ کووڈ-19وائرس عورتوں کو کئی طریقوں سے دیگر لوگوں کی نسبت زيادہ متاثر کر رہا ہے۔

کووڈ-19 کا نشانہ بننے والی حاملہ عورتوں کو خاص خطرات تو ابھی واضح نہیں ہوئے مگر وباء جنسی و تولیدی صحت اور حقوق پر منفی اثر ڈالے گی۔ بوجھ تلے دبے صحت کے نظام، وسائل کی دوبارہ تخصیص، طبی سازوسامان کی قلت، سامان کی فراہمی کے عالمی نظام کے تعطل سے اسقاط حمل تک عورتوں کی رسائی اور قبل از ولادت، بعد از ولادت اور  بچے کی ولادت کے وقت عورتوں کی طبی نگہداشت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ بچے کو ماں کا دودھ پلانے سے وباء لگنے کا خطرہ ہے کہ نہیں یہ ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا مگر یواین آبادی فنڈ نے سفارش کی ہے کہ دودھ پلانے والی مائیں جو بیمار پڑ جائیں انہیں ان کے نوزائیدہ بچوں سے الگ نہ کیا جائے۔ پچھلی وباؤں ،جیسے کہ سیرا لیون میں ایبولا نے قبل از ولادت اوردوران زچگی نگہداشت کو متاثر کیا جس کی بدولت عورتیں زچگی کے دوران اموات یا بیماریوں کا زیادہ نشانہ بنی تھیں۔   

چین میں، ذرائع ابلاغ کی اطلاعات سے پتہ چلتا ہے کہ قرنطینہ میں گھریلو تشدد بڑھا ہے۔ بحران اور لاک ڈاؤن کے دوران ذہنی دباؤ، رہن سہن کے کٹھن اور مشکل حالات اور سماجی خدمات کے تعطل کے باعث گھریلو تشدد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ بحران بدسلوکی سے عورتوں کے بچاؤ کی صلاحیت کو محدود کر سکتے ہیں اور متاثرین کو ایک ایسے ماحول میں رکھتے ہیں جہاں انہیں سہولیات تک رسائی نہیں ہوتی جیسے کہ بدسلوکی کرنے والوں سے دور محفوظ پناہ گاہیں اورر بدسلوکی پر جوابدہی۔ 

دنیا بھر میں عورتیں مردوں کی نسبت اڑھائی گناہ زیادہ بلاتنخواہ نگہداشت اور گھریلو کام کرتی ہیں، اور سکولوں کی بندش کے وقت اس بات کے زیادہ امکانات ہیں کہ انہیں نگہداشت کی اضافی ذمہ داریاں سونپی جائیں جس سے انہیں تنخواہ دار روزگار برقرار رکھنے میں مشکل پیش آتی ہے۔ جاپان نے صنعتوں کے لیے آفسیٹ لاگتوں کی پیشکش کی ہے مزدوروں کو بمہ تنخواہ چھٹی دینے کے لیے تاکہ وہ سکولوں کی بندش کے دوران اپنے بچوں کی نگہداشت کر سکیں۔ اگرچہ پیشکش کی جانے والی رقم معمولی تھی۔ اٹلی بچوں والے خاندانوں پر لاک ڈاؤن کے اثرات کم کرنے کے لیے ضروری اقدامات پر سوچ بچار کر رہا تھا۔ بمہ تنخواہ ہنگامی رخصت یا بارہ برس تک کی عمر کے بچوں (کسی بھی عمر کے معذوری کے شکار بچوں) والے خاندانوں کے لیے یا ووچرز جنہیں سکولوں کی طویل بندش کے دوران بچوں کی نگہداشت کے اخراجات ادا کرنے ہیں۔

 بعض خطوں میں 95 فیصد تک مزدور عورتیں غیررسمی شعبے میں کام کرتی ہیں جہاں اگر کووڈ-19 جیسا بحران اُن کے ذرائع آمدن تباہ کر دے تو اُنہیں ملازمت کا تحفظ اور کسی قسم کا سماجی حاصل نہیں ہوتا۔ غیررسمی کام میں کئی ایسے شعبے شامل ہیں جنہیں قرنطینہ، سماجی فاصلے، اور معاشی پیداوار کی سست روی سے نقصان پہنچنے کا قومی امکان ہوتا ہے جیسے کہ ریڑھی بان، سازوسامان کے تاجر، اور موسمی  مزدور۔ عورتوں کی اُن خدماتی صنعتوں میں بھی بڑی تعداد ہے جو کووڈ-19 پر ردؚعمل سے بہت زیادہ متاثر ہوئی ہیں۔

 دنیا بھر میں، صحت و سماجی خدمت فراہم کرنے والوں کا 70 فیصد عورتیں ہیں۔ جس سے مراد یہ ہے کہ کووڈ-19 کے خلاف جنگ میں عورتیں ہر اول دستے کا کام کر رہی ہیں اور شعبہ صحت میں کام کی بدولت انہیں وباء لگنے کا شدید خطر لاحق ہے۔ معاشروں میں اس خوف کہ صحت کے کارکن وباء کے حالات میں کام کرنے کی بدولت اس کا آسان شکار ہو سکتے ہیں، کی بدولت اس شعبہ کی عورتوں سے لوگ ملنے جلنے سے گریز کرتے ہیں یا وہ عورتیں رسوائی کا نشانہ بن سکتی ہیں جس سے ان کا اپنی اور اپنے خاندان کی صحت کا خیال رکھنے کا چیلنج اور کٹھن ہو جاتا ہے۔ اس کا عملی مظاہرہ اس صورت میں ہو سکتا ہے کہ وہ وباء کے خلاف جنگ میں اگلی صفوں پر کام کر رہی ہوں اور اُس دوران بچوں کی نگہداشت تک رسائی کرنے کی کوشش بھی کر رہی ہوں۔

نگہدااشت پر مامور کچھ  افراد مہاجر گھریلو مزدرو عورتیں ہیں۔ وہ عام حالات میں روزگار کے برے حالات کا نشانہ بن سکتی ہییں اور بدسلوکی، ملازمت کے چھن جانے، مناسب حفاظتی سازوسامان کے بغیر صفؚ اول کا نگہبان بننے  اور بحران کے دوران پھنس جانے اور اپنے گھر نہ جا سکنے جیسے سنگین خدشات سے دوچار ہوتی ہیں۔ وہ اپنی صحت کے تحفظ کی راہ میں رکاوٹوں کا بھی سامنا کر سکتی ہیں۔    

سکول اور کام کے لیے ٹیلیکمیونیکیشن کی طرف پیش قدمی جو کہ سماجی فاصلے کے ایک ذریعے کے طور پر کی جارہی ہے، عورتوں اور لڑکیوں کو سماج کے دیگر افراد کی نسبت زیادہ نقصان پہنچا سکتی ہے۔ بعض ممالک میں مردوں کے مقابلے میں عورتوں کے پاس انٹرنیٹ تک رسائی کے 31 فیصد کم امکانات ہیں، اور دنیا بھر میں مردوں سے 32 کروڑ 70 لاکھ کم عورتوں کے پاس سمارٹ فون ہے۔ اگر عورتوں کو انٹرنیٹ تک رسائی ہو پھر بھی صنفی تفاوت کے باعث وہ اسے استعمال کرنے کے بہت کم قابل ہوتی ہیں جس کی وجہ دیگر عوامل کے علاوہ خرچہ، میل جول اور خاندان کا دباؤ ہے۔ ایک گھر کے کئی لوگوں  کے پاس ٹیکنالوجی کے محدھود وسائل ہوں تو اس صورت میۂ صنفی عدم مساوات کی بدولت لڑکیوں اور عورتوں کی گھر کے اندر ٹیکنالوجی تک رسائی محدود ہو گی۔

سفارشات:

حکام صنفی بنیادوں پر پڑنے والے اثرات کم کرنے کے لیے اقدامات کریں اور یقینی بنائیں کہ وباء کے ردؚعمل میں ہونے والے اقدامات صنفی عدم مساوات دوام نہ بخشیں۔

جب آن لائن تعلیم کی طرف پیش قدمی ہو تو حکومتیں اور تعلیم فراہم کرنے والے آن لان کورسز میں طالبعلموں کی شمولیت اورتعلیم عمل میں ان کے ٹھہراؤ پر نظر رکھیں تاکہ صنفی اثرات کا پتہ چل سکے اور اگر لڑکیوں کی شمولیت کم ہوتی ہے تو اُن کی شمولیت برقرار رکھنے اور اور دوبارہ سے اُس کا حصہ بنانے کے لیے فوری کاروائی کی جائے۔ حکام کو اُن عورتوں کو روزگار سے محروم کرنے والے خطرات سے نبٹنا چاہیے جنہیں سکولوں کی بندش کے دوران اضافی نگہداشت کی ذمہ داری نبھانی پڑ سکتی۔

وباء سے متاثرہ مزدوروں کی مدد کی غرض سے کیے گئے اقدامات میں غیررسمی کام اور خدماتی صنعتوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی امداد کو یقینی بنایا جائے جن کی بڑی تعداد عورتوں پر مشتمل ہے۔

 حکومتیں یقینی بنائیں کہ عوامی شعور کی مہمات میں یہ بھی بتایا جائے کہ گھریلو تشدد کے متاثرین سہولیات تک  رسائی کیسے کر سکتی ہیں، اور گھریلو تشدد کے تمام متاثرین کو سہولیات کی فراہمی یقینی بنائیں بشمول ان کے جو نقل و حرکت کی پابندیوں کے تحت یا قرنطینہ میں رہ رہے ہیں اور جو کووڈ-19 کے متاثرین ہیں۔

حکومتوں کو اگلی صفوں پر اور سماجی خدمت کی فراہمی پر کام کرنے والے کارکنان کی امداد کرنی چاہیے اس حقیقت کو تسلیم کر کے کہ ان مزدوروں میں زيادہ تر عورتیں ہیں۔ امداد کرتے وقت ان کے اپنے خاندانوں کے اندر بطورؚ نگہبان ان کی ضروریات اور ان پر اور ان کے خاندانوں پر لگنے والی تہمت کو ضرور مدؚنظر رکھا جائے۔

جن ممالک سے مہاجر گھریلو مزدور آتے ہیں اور جہاں یہ کام کرنے جاتے ہیں، ان دونوں طرح کے ممالک کو مہاجر گھریلو مزدوروں کا سراغ لگانے اور ان کی امداد کے لیے خصوصی اقدامات کرنے چاہییں تاکہ کام کے ظالمانہ حالات سے نبٹا جا سکے اور کووڈ-19 پر قابو پانے کے لیے ان کی مدد ہو سکے۔

حکومتیں اور عالمی ادارے حاملہ عورتوں پر کووڈ-19 کے اثر پر گہری نظر رکھیں اور عورتوں اور لڑکیوں کے صنفی و تولید حقوق پر کووڈ-19 کے منفی اثرات کو کم کریں۔

 

امتیازی سلوک اور تہمت کا خاتمہ کریں، مریض کی رازاداری کو تحفظ دیں۔

صحت عامہ کے پچھلے بحرانوں کے دوران، وباء یا بیماری کے شکار لوگوں اور ان کے خاندانوں کو اکثر امتیازی سلوک اور تہمتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ مثال کے طور پر، ہیومن رائٹس واچ کو معلوم ہوا کہ کینیا، جنوبی افریقہ، فلپائن،اور یوایس میں ایڈز کے مریضوں کو اپنی بیماری کی وجہ سے امتیازی سلوک اور لوگوں کی تہمتیں برداشت کرنی پڑیں اور انہیں صحت کی سہولیات تک رسائی، روزگار کے حصول اور سکول جانے کے عمل میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔ صحت عامہ کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ مغربی افریقہ میں ایبولا کے بچ جانیوالے متاثرین پر تہمت لگائی گئی اور بعض واقعات میں، انہیں بےدخلی، ملازمت سے محرومی، لاوارثی، تشدد، اور دیگر نتائج کا سامنا کرنا پڑا۔   

ذرائع ابلاع کی اطلات سے پتہ چلا ہے کہ کورونا وائرس پھوٹنے کے بعد، کئی ممالک میں ایشیائی نسل کے لوگوں کے خلاف تعصب، نسل پرستی، غییرملکیوں سے نفرت اور امتیازی سلوک کے  واقعات پیش آئے ہیں۔ سکولوں میں جسمانی حملے اور مارپیٹ، پُرتشدد دھونس، سکولوں یا کام کے مقامات پر مشتعل دھمکیاں، امتیازی سلوک، اور ذرائع ابلاغ کی اطلاعات میں اور  سوشل میڈیا کے فورموں پر توہین آمیز زبان کا استعمال یا ایسے واقعات کا حصہ تھے۔ ذرائع ابلاغ کی اطلاعات کے مطابق،  برطانیہ، امریکہ، سپین، اور اٹلی سمیت کئی ملکوں میں کووڈ-19 کے حوالے سے ایشیائی پس منظر کے لوگوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ سمیت اعلیٰ امریکی عہدیداروں نے کورونا وائرس کو ''چینی وائرس'' قرار دے چین مخالف جذبات کو ہوا دی ہے اور وائٹ ہاؤس نامہ نگار کے مطابق، ایک واقعہ میں، اسے ''کُنگ فلو''  قرار دیا گیا۔ ہنگری میں وکٹر اوربن اور اٹلی میں میٹیو سالوینی جیسے مہاجر مخالف رہنماؤں نے وباء کو ایک موقع سمجھ کر غیرملکی جذبات کو ہوا دی ہے۔

جنوبی کوریا کے حکام کا خیال ہے کہ ملک میں اس وقت تصدیق شدہ 7,300 سے زائد کیسز میں سے 63 فیصد افراد نے دائگو میں شیخچیون جی چرچ آف جیزز کی عبادات میں شرکت کی تھی یا شرکاء سے میل جول کیا تھا۔ ایک بیان میں، گرجاگھر نے وباء کے پھیلاؤ کے بعد سے مجتمعین کے خلاف ''ناانصافی کے 4,000 '' واقعات رپورٹ کیے جن میں ملازمت سے برطرفی، کام کے مقامات پر دھونس و دھمکی، گھریلو اذيت، بُرے لیبل اور تہمت شامل تھے اور کہا کہ گرجا کو ''کووڈ-19 کا بنیادی مجرم'' قرار دیا گیا۔

جنوبی کوریا میں بی بی سی کی اطلاعات میں بتایا گیا کہ وباء کے بارے میں صحت عامہ کی جو تنبیہات دی گئيں ان میں شاید وباء کے شکار افراد کی خلوت کا کوئی خاص خیال نہیں رکھا گیا 

حکومتیں ایسے افراد اور معاشروں کو حملوں سے بچانے سے کے لیے فوری کاروائی کریں جنہیں کووڈ-19 کا ذمہ قرار دیے جانے کے خدشات ہیں، منظرعام پر آنے والے تمام واقعات کی مکمل تحقیقات کریں اور مجرموں کو جوابدہ ٹھہرائیں۔

حکومتیں یقینی بنائیں کہ کووڈ-19 پر قابو پانے کے لیے جو اقدامات کیے جا رہے ہیں ان میں مخصوص مذہبی یا لسانی گروہوں کو نشانہ نہ بنایا جائے، اور ایسے اقدامات شمولیتی ہوں اور پسے ہوئے طبقوں بشمول معذوری کے شکار لوگوں اور عمررسیدہ افراد کے حقوق کے احترام پر مبنی ہوں۔ حکومتیں معذوری کے شکار لوگوں اور عمررسیدہ افراد کو ہنگامی خدمات کی فراہمی یقینی بنائیں۔

حکومتیں کورونا وائرس سے جڑی تہمت اور امتیازی سلوک کے خلاف جدوجہد کریں اور اس مقصد کے لیے صحت کے کارکنان کو کووڈ-19 پر تربیت دی جائے، عوامی شعور کے لیے ذرائع ابلاغ اور سکولوں کے نیٹ ورک کا استعمال کیا جائے، اور یہ حقیمت تسلیم کی جائے کہ وباء ملکی سرحدوں، نسل، لسانی شناخت، مذہب یا قومیت سے ماوراء ہوتی ہے۔

حکومتیں مریض کی رازداری کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔ وباء کا شکار ہونے والوں کی شناخت کے لیے ہونے والے سرکاری اقدامات کے دوران بھی اس چیز کو مدؚنظر رکھا جائے۔  

 

پسماندہ آبادیوں کو طبی سہولیات کی بلاامتیاز فراہمی یقینی بنائیں

یواین ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق مشل بیشلٹ جوکہ تربیت کے لحاظ سے بچوں کی بیماریوں کے معالج ہیں، نے کہا ہے کہ وباء سے مؤثر لڑائی کا مطلب ہے کہ ہر فرد کو علاج معالجے کی سہولت دستیاب ہو اور لوگ صرف علاج کا خرچہ برداشت نہ کر سکنے یا تہمت کی وجہ سے علاج سے محروم نہ رہ جائیں۔  

کئی ملکوں میں، ہم جنس پرست عورتوں، ہم جنس پرست مردوں، بین صنفی افراد اور خواجہ سراؤں (ایل جی بی ٹی) کو طبی نگہداشت کے حصول کے دوران امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کے مشاہدے میں آیا ہے کہ امریکہ، تنزانیہ، جاپان، انڈونیشیا، بنگلہ دیش، روس اور لبنان میں جنسی رجحان اور صنفی شناخت کی بنیاد پر طبی نگہداشت کے حوالے سے لوگوں سے امتیازی سلوک روا کیا گیا ہے۔  چونکہ مردوں کے ساتھ مباشرت کرنے والے مرد اور خواجہ سراؤں سمیت ایل جی بی ٹی ایڈز کا شکار ہونے یا منتقل کرنے کے خطرے سے زیادہ دوچار ہوتے ہیں لہذا آبادی کے دیگر طبقوں کے نسبت ان کے طبی معائنے یا علاج معالجے کے امکانات کم ہوتے ہیں اس لیے ان کی قوت مدافعت کم ہو سکتی ہے اور وہ کووڈ-19 کے نتیجے میں سنگین بیماریوں میں مبتلا ہونے یا ہلاک ہو جانے کے شدید خطرات سے دوچار ہوتے ہيں۔

حکومتیں یقینی  بنائیں کہ کووڈ-19 سے متعلقہ طبی نگہداشت کی خدمات تہمت اور ہر قسم کے امتیاز کے بغیر دی جائیں۔ جنسی رجحان اور صنفی شناخت کی بنیاد پر بھی امتیاز نہ کیا جائے، اور عوامی پیغامات کے ذریعے چلائی جانے والی مہمات سے واضح کیا جائے کہ طبی نگہداشت کے حصول کا حق ہر فرد کو حاصل ہے۔

حکومتیں طبی نگہداشت فراہم کرنے والوں اور غیرتحریر شدہ مہاجرین کے درمیان ایک فائروال بنائیں تاکہ غیرمحفوظ طبقوں کو یقین دلایا جا سکے کہ اگر وہ زندگی کو بچانے کے لیے ضروری نگہداشت، خاص طور پر کووڈ-19 کے لیے معائنے یا علاج تک رسائی کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو انہیں انتقام یا ملک بدری کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔ 

حکومتیں یہ بھی یقینی بنائیں کہ لوگوں کو کووڈ-19 کے طبی معائنے، انسدادی نگہداشت اور علاج معالجے کے حصول کے لیے مالی رکاوٹوں  کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ امریکہ میں دو کروڑ، اسّی لاکھ لوگوں کا طبی بیمہ نہیں اور لگ بھگ ملک کی ایک تہائی آبادی کو علاج کے اخراجات ادا کرنے میں مشکلات درپیش ہوتی ہیں حالانکہ ان کا بیمہ ہے۔ امریکہ میں کئی لوگوں کے بقول وہ اخراجات کی وجہ طبی نگہداشت سے یا تجویز کردہ ادویات  خریدنے سے گریز کرتے ہیں جس کے باعث ان کی صحت اور زيادہ بگڑ جاتی ہے۔ وباء کی صورت میں، طبی نگہداشت سے پرہیز نہ صرف بیمار لوگوں کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ اس سے کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں اضافہ ہو گا۔

تمام حکومتوں پر یہ یقینی بنانے کا فریضہ عائد ہے کہ صحت عامہ کا سنگین بحران انسانی حقوق کا بحران نہ بنے کیونکہ لوگ مؤثر طبی نگہداشت تک رسائی کے متحمل نہیں ہیں۔ حکومتوں کو یہ یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے کہ طبی نگہداشت اور علاج معالجے کے مواقع تک ہر فرد کی پہنچ ہو۔

 

کمیونٹی اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کو تحفظ دیں

کئی ملکوں میں، سول سوسائٹی کی تنظیمں وباء کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے اور کووڈ-19 کے مریضوں کو یا تنہائی یا قرنطینہ میں رہنے والوں کو ضروری تحفظ، نگہداشت اور سماجی سہولیات کی فراہمی کے لیے بہت زیادہ محنت کر رہی ہیں۔ حکومتیں ایسی سول سوسائٹی تنظیموں، نیز وباء پر رپورٹنگ کرنے والے لوگوں کی حفاظت اور امداد کو یقینی بنائیں۔

2014 میں، مغربی افریقہ میں ایبولا کے دوران، غیرحکومتی تنظیموں، مقامی اخبارات اور کمیونٹی ریڈیو نے صحت عامہ کی تعلیم عام کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔

ہانگ کانگ میں، عام لوگوں نے پالیسی میں پائے جانے والے خلاؤں کو پُر کرنے کے لیے وباء کے خطرے سے دوچار لوگوں میں ماسک اور سینیٹائزر تقسیم کیے ہیں۔ مگر چینی حکومتوں نے طویل عرصہ سے غیرحکومتی تنظیموں پر اپنی گرفت مضبوط کی ہوئی ہے اور کچھ تنظیمیں وباء کے دوران اپنے قلیل فنڈز کی بدولت بہت مشکلات سے دوچار تھیں۔

اٹلی میں، حکام نے سمندر پر ریسکیو کا کام کرنے والی تنظیموں کو مہاجرین اور پناہ گزینوں کو سمندر کی گودی میں قرنطینہ کرنے پر مجبور کیا حالانکہ عملے کے لوگوں اور مسافرین کے طبی معائنے کا نتیجہ منفی آیا تھا۔ ایسی صورتحال جس میں سویلین ریسکیو مؚشنوں کومسلسل نقصان پہنچایا جا رہا ہے، پابندیاں لگائی جا رہی ہیں اور یہاں تک کہ ان کے خلاف مقدمے درج کیے گئے ہیں، سمندر پر ریسکیو کے کام کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے لیے غیرضروری قرنطینہ کا استعمال ہو سکتا ہے۔

حکومتیں سول سوسائٹی تنظیموں کے خلاف قانونی کاروائی کرنے یا ان کے کام میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے کورونا وائرس کے باعث پیدا ہونے والے حالات کا ناجائز استعمال نہ کریں۔

 

پانی اور حفظانؚ صحت کے حقوق کو فروغ دیں

 پانی اور حفظانؚ صحت کے حقوق اچھے معیارؚ زندگی کے حق کا حصہ ہیں۔ یواین کمیٹی برائے معاشی، مغاشرتی و ثقافتی حقوق نے ایک بار پھر اس حقیقت کی تائید کی ہے کہ پانی اور حفظانؚ صحت کے حقوق اچھے معیارؚ زندگی کا لازمی حصہ ہیں اور میثاق کے دیگر حقوق کے علاوہ، ''حقؚ صحت کے ساتھ پوری طرح جڑے ہوئے ہیں۔''

دنیا بھر میں اربوں لوگ پینے کے صاف پانی کی سہولت سے محروم ہیں۔ پھر بھی، جیسا کہ ڈبلیو ایچ او کے مشاہدے میں آیا ہے، کووڈ-19 کے دوران، انسانی صحت کے تحفظ کے لیے، صاف پانی، حفظانؚ صحت اور صفائی ستھرائی ناگزیر ہے۔ کووڈ-19 وائرس کی انسان سے انسان میں منتقلی روکنے کے کام میں پانی اور حفظان صحت کے فروغ سے، پانی و آلودہ پانی کے ‌ضياع کے ڈھانچے اور فنی ماہرین کی معاونت سے مدد مل سکتی ہے کیونکہ اس طرح گھروں، سکولوں، بازاروں، اور صحت کے مراکز میں اچھے اور صاف پانی کی مسلسل فراہمی، حفظان صحت، صفائی اور فضلے کو ٹھکانے لگانے کے طرائق میں بہتری لائی جا سکے گي۔ پینے کے آلودہ پانی ، ماحولیاتی ترسیل کے خطرے کو سمجھنے کے لیے مزید تحقیق ضروری ہے اور آلودہ پانی کے آپریٹرز کی تربیت اور بحران کے خاتمے تک ان کی مدد کو یقنی بنانے کی بھی ضرورت ہے۔

گھر، سکول، یا صحت کے مراکز میں پینے کے پانی اور صفائی کی کمی سے انسدادی اقدامات مشکل ہو جائیں گے۔ بعض واقعات میں، پانی و صفائی کے بغیر، یہ مقامات بیماری کے پھیلاؤ کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔

وینزویلا کا صحت کا ڈھانچہ اتنا کمزور ہے کہ ہاتھ دھونے کی انتہائی بنیادی سفارش پر عملدرآمد یہاں تک کہ طبی کرنے والوں کے لیے بھی مشکل ہے جو بڑے کٹھن حالات میں کام کر رہے ہیں۔ پچھلے کچھ مہینوں میں وینزویلا کے بعض ڈاکٹروں اور نرسوں نے ہیومن رائٹس واچ کو انٹرویو کے دوران بتایا کہ اُن کے کلینکوں اور ہسپتالوں میں صابن اور جراثیم کش ادویات سرے سے ہیں ہی نہیں۔ افراط زر میں اضافے اور ان کی تنخواہوں میں کمی کی بدولت ان کے لیے ممکن نہیں کہ وہ یہ سازوسامان خود اپنے پیسوں سے لے آئیں۔ دارالحکومت کراکس کے سرکاری ہسپتالوں میں بھی پانی کی مستقل قلت مشاہدے میں آتی ہے۔ دوردراز کے علاقوں کے ہسپتالوں میں یہ قلت ہفتوں سے مہیوں تک جاری رہتی ہے۔ مریض اور عملے کے لوگ پینے کے لیے اور بعض اوقات بیت الخلا میں ڈالنے کے لیے پانی اپنے ساتھ لاتے ہیں۔

حکومتیں بلؚوں کی ادائیگی میں ناکامی کی صورت میں پانی کی فراہمی بند ہونے کا سسلسلہ فوری طور پر معطل کریں۔ بؚل کی ادائیگی میں ناکامی پر پانی کی فراہمی کی بندش انسانی حقوق سے مطابقت نہیں رکھتی اور کووڈ-19 جیسے صحت عامہ کے بحران میں خاص طور پر نقصان کا سبب بنے گی۔

 

انسان دوست امداد کا تسلسل یقینی بنائیں

اقوامؚ متحدہ کے مطابق، کووڈ-19 سے متاثر کئی ممالک پہلے سے ہی کشیدگیوں، قدرتی آفات، یا موسمی تبدیلی جیسی بحرانوں سے گزر رہے ہیں۔ ان کشیدگی زدہ ممالک میں کئی لوگوں کی زندگیوں کا انحصار انسان دوست امداد پر ہے۔ 

حکومتیں یقینی بنائیں کہ یواین اور دیگر امدادی تنظیموں کی طرف سے جاری امدادی کاروائیں کووڈ-19 کی وجہ سے متاثر نہ ہوں۔ 

 

کم آمدنی والے مزدوروں کی امداد کے لیے معاشی ریلیف لایا جائے

حکومتوں کو کووڈ-19 کے معاشی اثرات سے لڑنے کے لیے پالیسی سازی کرنی ہوگی جس کا سب سے پہلا اور سخت اثر کم آمدنی والے مزدوروں پر پڑے گا۔ سماجی فاصلہ، قرنطینہ، اور کاروباروں کی بندش کے بھاری معاشی نتائج مرتب ہو سکتے ہیں جن کا سب سے بڑا نشانہ کم آمدنی والے گھرانوں میں کم آمدنی والے مزدور بن رہے ہیں۔ حکومتیں ایسی راہیں نکالیں کہ کووڈ-19 سے متاثر مزدوروں کو اتنا معاشی نقصان نہ اٹھانا پڑے جو انہیں وباء کے پھیلاؤ سے روکنے کے لیے درکار خودساختہ تنہائی اختیار کرنے سے ڈرائے۔

صحت عامہ کے ماہرین کی ملازمین سے اپیل ہے کہ وہ وباء کے پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے گھر میں رہ کر کام کریں۔ مگر فیلڈ جیسے کہ پرچون فروشی، ذاتی خدمات، عارضی روزگار اور غیررسمی شعبوں میں رہ کر کام کرنے والے کروڑوں مزدور گھر میں رہ کر کام کرنے کی تجویز پر عملدرآمد کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ان شعبوں میں، روزگار کے حالات زیادہ غیریقینی ہیں، معاوضے کم ہوتے ہیں، اور بعض ملکوں میں مزدوروں کو تنخواہ کے ساتھ بیماری کی چھٹی کے کم مواقع ملتے ہیں۔ خاص طور پر امریکہ جیسے ممالک میں، جہاں کم تنخواہ بیماری کی چھٹی اور صحت کی سہولت کی عدم موجودگی کے ساتھ جڑجاتی ہے، وہاں مزدوروں کو امداد کی ضرورت پڑے گی۔

ہیومن رائٹس واچ بڑے عرصے سے حکومتوں پر زور دے رہا ہے کہ وہ بمہ تنخواہ بیماری و خانگی چھٹی کی ضمانت دیں تاکہ ملازمین اپنے نوزائیدہ بچوں یا بیمار یا عمررسیدہ اہلؚ خان کی نگہداشت کے لیے یا اپنی صحت کے بڑے مسائل سے نبٹنے کے لیے بغیر ملازمت کھوئے اپنے کام کو کچھ عرصہ کے لیے موقوف کر سکیں۔ کووڈ- 19 اور دیگر بیماریاں پھوٹنے کے تناظر میں، بمہ تنخواہ بیماری اور خانگی رخصت یقینی بنائے گی کہ بیمار مزدور یا جن کے اہلؚ خانہ بیمار ہیں ایسے مزدور گھر پر ٹھہر کر وباء کے پھیلاؤ میں کمی لا سکتے ہیں۔  

کئی حکومتیں تمام مزدوروں کو بمہ تنخواہ بیماری رخصت کی ضمانت دیتی ہیں۔ دیگر، خاص طور پر ترقی یافتہ ممالک میں سے امریکہ اس چیز کی ضمانت نہیں دیتے۔ کم آمدنی والے لوگ، خدماتی مزدور، غیررسمی مزدور، اور عارضی روزگار والے مزدور اُن مزدوروں میں شامل ہیں جنہیں بمہ تنخواہ بیماری رخصت ملنے کا امکان بہت کم ہے۔ بمعہ تنخواہ بیماری رخصت اور خانگی رخصت نہ ہونے کا مطلب ہے کہ کووڈ-19 جیسی بیماریاں پُھوٹنے سے غریب اور پسماندہ مزدوروں پر اضافی بوجھ پڑے گا، معاشی ناہمواریاں بڑھیں گی اور صنفی عدم مساوات میں بھی اضافہ ہو گا۔ وباء کے دنوں میں، خود ساختہ تنہائی اور سکولوں و نگہداشت کےاداروں کی بندش کے دوران، نگہداشت کی ذمہ داریوں کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے بیماری و خانگی رخصت ناگزير ہے۔

سازوسامان کی فراہمی کا عالمی نظام پہلے ہی کووڈ-19 سے تعطل کا شکار ہے۔ کووڈ-19 نے اشیا کی پیداوار کم کر دی ہے اور فیکٹریوں کی بندش کا سبب بنا ہے۔ خدشہ ہے کہ عالمی معیشت سے جڑے ہوئے پیشوں میں کام کرنے والے مزدور کم اجرت کے عوض جُزوقتی کام کرنے پر مجبور ہوں گے یا سؚرے سے اپنے روزگار سے ہی ہاتھ دھو بیٹیھیں گے۔

ایک حل یہ ہے کہ ضائع شدہ وقت کی تلافی کے لیے نغدی (کیش) کی براہ راست ادائیگی کی جائے جیسا کہ 2008 کے معاشی بحران کے دورران امریکی حکومت نے کی تھی۔ کم آمدنی والے مزدوروں کو اُس وقت تحفظ کی ضرورت ہوتی ہے جب وہ اپنی بیماری یا اپنے خاندان کے لوگوں کی بیماری کے باعث کام نہیں کر سکتے ہیں اور آجر انہیں فارغ کردیتے ہیں۔ امداد کے بغیر، یہ مزدور بھاری معاشی مشکلات کا نشانہ بن سکتے ہیں، قرضوں کی عدم ادائيگی کا شکار ہو سکتے ہیں اور گھروں سے بےدخل ہو سکتے ہیں۔ ایسے خاندانوں جن کے بچے سکول میں مفت کھانا لیتے ہیں یا جو خاندان سے مخصوص سماجی تحفظ کی امداد لیتے ہیں، انہیں سادہ طریقے سے ایک ہی بار نغدی دینے سے ان خاندانوں پر پڑنے والے اثرات کم کرنے میں مدد ملی گی جو پہلے ہی مشکلات کا شکار ہیں اور اب ذریعہ آمدن کی محرومی کے علاوہ اضافی بوجھ تلے بھی آ گئے ہیں، مثال کے طور پر سکولوں کی بندش کی وجہ سے۔

پورپی ممالک بشمول اٹلی، فرانس اور سپین اس پر سوچ بچار کر رہے ہیں یا انہوں نے پہلے ہی خصوصی مالیاتی اقدامات اٹھا لیے ہیں تاکہ مزدوروں، کم آمدنی والے خاندانوں اور چھوٹے تاجروں کو مدد مل سکے۔

آجروں کو محصولات سے غیرمشروط چھوٹ اور ملازمین کو پیرول محصول سے چھوٹ کا استعمال اکثر انتہائی ناقص ہوتا ہے اور ہو سکتا ہے کہ اؚ کا فائدہ اُن لوگوں تک نہ پہنچ سکے جنہیں اؚس کی سب سے زيادہ ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر، بے روزگاری بیمہ پروگرام کی طرح وسیع شدہ سماجی بیمہ پروگرام کے  ذریعے مزدوروں کو اس عرصے کے دوران پیرول پر گزارہ کرنے اور معاوضہ لینے کا موقع مل سکتا ہے جس دوران کووڈ-19 وباء کے سبب کام نہیں کر سکتے۔ 

 

ہیومن رائٹس واچ کیا کر رہا ہے؟

کووڈ-19 کے اثرات پر ہماری رپورٹس کے متعلق جاننے  کے لیے درج ذیل لنک ملاحظہ کریں:

https://www.hrw.org/tag/coronavirus

Your tax deductible gift can help stop human rights violations and save lives around the world.

Region / Country
Topic